نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک)بھا رت کے اساڑا گاﺅں میں مقامی برادریوں کے رہنما ئو ں نے محبت کی شادیوں اور عورتوں کے اکیلے گھر سے باہر نکلنے پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔یہ فیصلہ ’چھتیس برادریوں کی پنچایت‘ نے کیا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ یہ قدم عورتوں کی حفاظت کے لیے اٹھایا گیا ہے جنہیں بازار جاتے وقت چھیڑ چھاڑ کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔پنچایت کے فیصلہ کے مطابق ہے کہ چالیس سال سے کم عمر کی کوئی بھی عورت کسی مرد کو ساتھ لیے بغیر ’اتواربازار نہیں جائےگی۔ لڑکیوں کو گھر سے باہر گلیوں میں موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور وہ سر ڈھک کر ہی گھر سے باہر نکلیں گی‘۔شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے پنچایت کے فیصلے پر سخت تنقید کی ہے اور اسے ’طالبانی فیصلہ‘ قرار دیا جارہا ہے۔خواتین کے قومی کمیشن کی سابق سربراہ گریجا ویاس نے کہا کہ پنچایت کے فیصلے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے اور کسی کو اس پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خواتین کے بنیادی شہری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔لیکن گائوں والوں کا کہنا ہے کہ وہ عورتوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں اور علاقے کی عورتیں پنچایت کے فیصلے سے پوری طرح اتفاق کرتی ہیں۔ جمعہ کو چنڈی گڑھ میں ایک پریس کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے کہا کہ ’ان پنچایتوں کے جاری کردہ فرمانوں کی جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہے اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے جن کے اکس نے پر اس قسم کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘ہندوستان میں گزشتہ دو تین ہفتوں میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جن سے عورتوں کے حقوق کا معاملہ سرخیوں میں آگیا ہے۔کچھ روز قبل شمال مشرقی ریاست آسام میں ایک خاتون قانون ساز اور ان کے دوسرے شوہر کو لوگوں نے بے رحمی سے پیٹا تھا۔ آسام میں ہی اسی ہفتے ایک لڑکی کے ساتھ کچھ نوجوانوں نے اس وقت سرعام بدسلوکی کی جب وہ ایک پارٹی میں شرکت کے بعد اپنے گھر لوٹ رہی تھی۔ ایشیائی کھیلوں میں گولڈ میڈل جیتنے والی پنکی پرمانک کے ساتھ ذیاتیوں کے الزامات بھی کئی روز سے سرخیوں میں ہیں۔اساڑا گاو¿ں کی پنچایت کا فیصلہ منظر عام پر آنے کے بعد پولیس حرکت میں آئی ہے اور خبر رساں اداروں کے مطابق پورے واقعے کی تفتیش کی جارہی ہے۔
0 comments:
Post a Comment