Sunday 2 November 2014

انقلاب کا فرار


....سیدعارف مصطفیٰ.....
طاہرالقادری صاحب نے فرمایا ہے کہ انقلاب آگیا ہے۔ کتنا اور کس قدر آیا ہے یہ تو نہیں بتایا لیکن جتنا بھی آیا ہے شاید اسی کے ثمرات سے اہل مغرب کو آگاہ کرنے لئے وہ سوئے دیار فرنگ چل پڑے ہیں ۔۔۔ ویسے انکی باتیں سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، وہ کسی بھی وقت کسی بھی بات کا کوئی بھی مطلب بتا اور سمجھا سکتے ہیں۔ اسی لئے ضروری نہیں کہ وہ ٹماٹر کو ٹماٹر ہی کہیں وہ اسے حسب ضرورت آم یا امرود بھی کہ سکتے ہیں ۔ لیکن مسئلہ ہم کم فہموں کے ساتھ یہ ہے کہ کہے گئے الفاظ کو انکے معروف معانی کے مطابق ہی سمجھتے ہیں ۔۔۔ یا شاید اس مرتبہ قادری صاحب نے اتنے صاف اور دو ٹوک لفظوں میں باتیں کی تھیں کہ ہماری دانست میں ابہام کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہی تھی۔ کیا یہ واقعی ہماری کج فہمی تھی یا اس بار وہی کچھ غچا کھا گئے اسے سمجھنے کیلئے آئیے ماضی قریب کے چند مناظر کو ذہن میں دہراتے ہیں۔

یاد کیجیے ذرا وہ مناظر۔

طاہر القدری صاحب ابھی چند ہفتے قبل ہی ڈی چوک پہ پوری گھن گھرج سے مسلسل دھاڑ رہے تھے، ہم انقلاب لائے بغیر اور یہ حکومت ختم کرکے قومی حکومت بنائے بغیر اسلام آباد سے ہرگز ہرگز واپس نہیں جائینگے ۔ جو واپس جانے کی بات کرے، کارکنان اسے شہید کردیں۔

ذرا تصور میں لائیے موصوف کا دس نکاتی بھونچالی چارٹر آف ڈیمانڈ ۔ اور اکڑ بھی ایسی کہ بس پاپڑ جیسی ، ایک بھی نکتے سے دستبرداری قطعاً گوارا نہیں۔ وزراء ٹھوڑی میں ہاتھ دیئے جا رہے ہیں اور موصوف ہیں کہ ترچھی سے ترچھی بات کیئےجارہےہیں ۔

پھر 48-48 گھنٹوں کے باری باری دیئے جانے والےان کے وہ 2 آتشیں الٹی میٹم دیکھئے۔۔۔ سب اسمبلیاں فی الفور ختم کی جائیں، تمام صوبائی و مرکزی حکومتیں سبکدوش ہوجائیں اور صدر ، ورزیراعظم وزراء اعلیٰ و کابینہ اچھے بڑوں کی طرح استعفے دیکر اپنے ہاتھ ہتھکڑیاں لگانے کیلئےعاجزانہ آگے کریں اسکے بعد گویا ٹوکن لیکر چپ چاپ پھانسی کی لائن میں لگ جائیں۔

پھر پردہء ذہن پہ لایئے وہ جنونی ساعتیں کہ ڈی چوک پہ علامتی قبریں کھد رہی ہیں ، سینکڑوں نوجوانوں نے ریڈی و ٹیڈی کفن پہن لیئے ہیں اور قادری صاحب فرما رہے کہ بس آج یہاں دھرنے میں بیٹھنے کا آخری دن ہے اب ہم آگے بڑھیں گے اور انقلاب لے آئینگے، اب کل کی صبح انقلاب کی صبح ہے میں نے شہادت کی نیت سے آخری غسل کرلیا ہے اور اب کل منزل ہمارے قدموں میں ہوگی اور سب کچھ بدل جائے گا۔

پھر اس آخری دن کے بعد مزید 62 آخری دن آگئےاور موصوف نے لوگوں کے باہر نہ نکلنےمیں بھی یہ حکمت ڈھونڈھ لی کہ ایسے سب لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر انقلاب کے قائدے کو پکی طرح سے دہرارہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ انقلاب آگیا۔ موصوف کے دلائل دینے کا اپنا ہی ڈھنگ ہے کہ جن میںفضائل کھوجنا اور سمندر کے پانیوں میں گڑھا کھودنا ایک برابر ہے۔ پچھلے برس کے الیکشنوں کے مناسب ٹرن آؤٹ پہ جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ آپنے تو عوام سے اس الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی تھی، جبکہ ! تو موصوف نے جواب دیا تھا کہ باقی جو سارے لوگ ووٹ ڈالنے نہیں نکلے وہ بھی تو ہماری اتباع کی ہی مثال ہے۔

بہرطور یہ بات تو طے ہے کہ موصوف کی ٹائمنگ ہمیشہ لاجواب رہی ہے،انہیں جیسے ہی محسوس ہوا کہ وہ دھرنا اب ایک ایسے بچے کی مانند ہے کہ جسے عمران خان نے کھلایا پلایا تو کچھ نہیں البتہ بھینچ بھینچ کر بے جان کرڈالا ہے اور انکی گود میں ڈال کر نگر نگر گھومتے تقریروں کے رنگ جماتے پھر رہے ہیں اور کبھی کبھی پچکارنے چلے آتے ہیں تو انہیں سخت کوفت اور بیزاری کیوں نہ ہوتی ۔ انہیں تو اپنا دھرنا برخوردار ہی پالنا اب کھلنے لگا تھا۔ تازہ ہواؤں اور نئی نئی محفلیں سجانے کی ہڑک انہیں بے کل کیئے دیتی تھی ، پھر یہاں اب ڈی چوک میں رکھا ہی کیا تھا ۔ نا ہی کوئی مذاکرات کو آتا تھا نا تھوڑی میں ہاتھ دیتا تھا لے دے کرہاں صبح وشام ہوائیں بدبو کے نئے نئے پیغام لاتی تھیں اور سڑکوں پہ بیٹھے رہنے سے معتقدین بھی چپٹے اور چوکور سے ہو چلے تھے۔

عمران خان البتہ بہت مضطرب ہیں، اپنے سیاسی کزن سے انہیں یہ توقع نہ تھی۔ میدان کا سارا میلہ ساری رونق اجاڑ دی قادری صاحب نے ، عجب رنڈاپے کا سا سماں ہے ۔۔۔ شیخ رشید جیسوں کی مشاورت نے انہیں کہیں کا نا چھوڑا ،،، اب کھسیانے ہوئے بولائےسے پھرتے ہیں ،،، ایسے میں شاہ محمود نے الگ مت مار رکھی ہے اور مسلسل پارٹی میں اپنی پسند کے ممبر بڑھا بڑھا کر قیادت پہ قبضے کی تیاریاں صاف صاف دکھائی دیتی ہیں ۔۔ تو پھر جو تھوڑا بہت رونق میلہ اور میڈیا کی روزانہ کوریج کا بہانہ دھرنے سے بنا ہوا تھا اسے بھی طاہرالقادری اجاڑ گئے۔

لیکن شیخ الاسلام بھی کیا کریں ۔۔۔ ایسے میں کہ جب ہلہ شیری دینے والے پیچھے سے رفو چکر ہو جائیں، عوام بھی پراں پراں ہونے لگے ہوں یوں ملک میں اور کچھ کرنے کو کچھ بچا بھی نا ہو اور میڈیا اور سول سوسائٹی بھی کارکردگی کے بارے میں ہزار سوالات لیئے منہ کو آتی ہو تو پھر آگے مزید کرنے کے کام ڈھونڈھنے اور بہت سے سوالیوں کے سوالوں سے دامن چھڑانے کیلئے ، بالآخر باہر کا رخ تو کرنا ہی تھا ۔ پھر الفاظ کے مطالب و معانی تو ایک طرح سے گھر کی لونڈی و غلام ہیں، جب چاہیں گے اپنا من چاہا مفہوم عطا کردیں گے۔۔۔ پھر انقلاب کا کیا ہے ۔۔۔ اس بار تھوڑا سا لائے ہیں، بعد میں کوئی تگڑا سہارا ملتے ہی سارے کا سارا حاضر کردینگے۔  

0 comments:

Post a Comment