Sunday 31 August 2014

مفتی اعظم فلسطین کا قائد اعظمؒ کے نام خط



 جمعـء 29 اگست 2014
میں آپ کی توجہ فلسطین کی گمبھیر صورتحال اور ہر ملک کے مسلمانوں کی حمایت کی ضرورت کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں گا، مفتی اعظم فلسطین کا قائد اعظم کو خط فوٹو: فائل
قائداعظم جب پاکستان کی آزادی کیلئے جنگ کر رہے تھے اس وقت بھی جانتے تھے کہ غیر منقسم ہندوستان سے باہر عالم اسلام کے کیا مسائل ہیں اور وہ بھر پور انداز میں عالم اسلام کے سلگتے ہوئے مسائل پر نظر رکھتے تھے۔
ذیل میں ہم مفتی اعظم فلسطین کا قائداعظم کے نام ایک خط جو عربی زبان میں ہے اور جو قائد کے خطوط پر مشتمل مجموعے ’’صرف مسٹر جناح‘‘ میں اصل اور ترجمے کے ساتھ موجود ہے، پیش کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے:
’’عزت مآب جناب محمد علی جناح صاحب!
السلام و علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ، میں پہلی دفعہ آپ کو خط تحریر کررہا ہوں۔ میرا یہ خط آپ کی ان گراں قدر خدمات پر آپ کیلئے اظہار تشکر ہے جو آپ احکام خداوندی کے مطابق اخوت اسلامی اور مسلمانوں کے مابین تعاون کی خاطر ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ سارے اسلامی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کیلئے انجام دے رہے ہیں۔
میں اس پرجوش دلچسپی پر بھی سپاس گزار ہوں جو ہندوستان کے مسلمان عالم اسلام کے دوسرے مسلمان بھائیوں کے معاملات میں لیتے ہیں، چاہے وہ فلسطین ہو یا طرابلس، شام ہو یا جاوا یا کوئی دوسرا ملک۔ آپ لوگوں کی کوشش کے نتیجے میں مسلمانوں میں جذبۂ تعاون زندہ ہوگیا ہے۔ میں آپ کا بالخصوص مسلم لیگ کا اس غیر معمولی التفات پر بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جو آپ نے مجھے عطا کیا۔ کیونکہ میری جلا وطنی کے دوران جب حالات بے حد کٹھن تھے، آپ کی آواز پہلی اسلامی آواز تھی جو میرے کانوں تک پہنچی اور اس کا تاثر شاندار تھا۔
میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ساری کی ساری اسلامی دنیا آپ کے اور مسلم لیگ کے مؤقف کی قدر اور مسلمانوں کے لئے آپ کی مسلسل اور بابرکت کوشش کی ستائش کرتی ہے اور تہہ دل سے ہندوستان میں اپنے مسلمان بھائیوں کے مفاد اور ان کے ساتھ تعاون میں اپنی کوششیں مجتمع کرنا چاہتی ہے۔ میرے نزدیک یہ اشد ضروری ہے کہ ہمارے درمیان رابطہ مسلسل اور مستحکم ہو۔ میں ان تمام بھائیوں کے لئے، جو مسلمانوں کی خدمت کے سلسلے میں آپ کے ساتھ رابطہ اور تعاون کیے ہوئے ہیں، جو کچھ بھی ممکن ہوا کروں گا۔
اپنے اس پیغام کے ساتھ میں آپ کی توجہ فلسطین کی گمبھیر صورتحال اور ہر ملک کے مسلمانوں کی حمایت کی ضرورت کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں گا کیونکہ فلسطین مقدس اسلامی ملک ہے جس کا تعلق ہر مسلمان سے ہے اور یہ ایک اسلامی کاز ہے۔ مزید برآں، فلسطین پر جارحیت بھی خالصتاً مذہبی وجوہ کے باعث ہے۔ کیونکہ صیہونی تحریک اصلاً ایک مذہبی تحریک ہے اور یہودی مذہبی محرکات کے تحت فلسطین پر اپنی بالادستی کیلئے کوشاں ہیں۔ اس میں اہم ترین محرک ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تسخیر ہے ۔
جس کے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اسی جگہ تھا جہاں اب مقدس مسجد اقصیٰ ہے، جیسا کہ ان کے ذمہ دار لیڈر اس کا اظہار کھلے بندوں اور بار بار کرچکے ہیں۔ لہٰذا جن اہم ترین وجوہ نے انگریزوں اور امریکیوں کو یہودیوں کی امداد پر آمادہ کیا ان میں بڑی وجہ مذہبی کاز ہے، یعنی بعض مذہبی پیش گوئیوں کی ظہور پذیری۔ لہٰذا یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا حق بلکہ فرض عین ہے کہ وہ اسلامی کاز کی طرف بھر پور توجہ دیں اور اپنی تمام تر کوششوں کا رخ اس طرف موڑ دیں۔
خدا کا شکر ہے کہ ہندوستان میں ہمارے مسلمان بھائیوں کی آواز نے غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔ آپ کے انتھک کارکنوں کے خلوص کا شکریہ، بالخصوص جو انگلستان میں ہیں، اس لیے کہ ان کا تعاون اور آواز غیر معمولی نتائج کی حامل ہوگی۔
دراصل عام انگریزوں کی توجہ اس غیر معمولی امتیازی برتاؤ کی طرف دلانا بہت اہم ہے جو ان کی حکومت کی طرف سے عربوں اور یہودیوں کے مابین روا رکھا جا رہا ہے۔ جیسا کہ عربوں کو قید کرلیا گیا ہے اور جلا وطن کردیا گیا ہے۔ فلسطین کے بہت سے مسلمان لیڈروں میں سے بعض کو رہوڈیشیا (جنوبی افریقہ)، بعض کو یورپ اور بہت سوں کو ترکی، حجاز، عراق اور مصر وغیرہ میں زبردستی بھیج دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی حقیقی نمائندگی کیلئے فلسطین میں کوئی بھی نہیں رہا۔
دوسری طرف کسی بھی یہودی لیڈر کو نہ تو جیل بھیجا گیا ہے اور نہ ہی جلا وطن کیا گیا ہے، حالانکہ انہوں نے بڑے مکروہ حملے کیے تھے اور اس کے باوجود کہ انہوں نے لارڈ میان کو قتل کردیا اور وہاں کے برطانوی ہائی کمشنر سرمائیکل اور اس کے رفقائے کار کو ہلاک کرنے کی کوششوں میں بری طرح زخمی کردیا۔
یہودیوں نے برطانوی پولیس اور فوج کے کئی افسر اور آدمی قتل کردیئے۔ سرکاری عمارتیں تباہ کر دیں۔ برطانوی بارود خانہ لوٹ لیا اور کئی ظالمانہ فعل کیے۔ ان کے بعض انتہا پسند لیڈروں کی اشتعال انگیز تقریروں کے باوجود انگریزی حکومت یہودیوں، ان کے لیڈروں اور ان کی تنظیموں کو پوری آزادی، سہولت اور امداد دے رہی ہے۔ آج عملاً صورتحال یہ ہے کہ وہ ہمارے ملک میں جہاں مرضی سفر کریں اور جس طرح چاہیں مزے اڑائیں۔ اس کے برعکس ہم اور ہمارے بھائی قید و بند اور جلاوطنی کے مصائب جھیل رہے ہیں اور وہ ہمیں اپنے ملک میں واپس آنے اور قیام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
امید ہے آپ میری گزارشات پر غور فرمائیں گے اور ہمیں اپنی مستقل حمایت سے نوازیں گے۔‘‘
12اکتوبر 1945ء
سید محمد امین الحسینی
مفتی اعظم فلسطین
قارئین کرام اس خط سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ابھی پاکستان قائم نہیں ہوا تھا، پھر بھی مفتی اعظم فلسطین ہمارے قائداعظم سے کیسی زبردست توقعات رکھتے تھے۔n
(قائد اعظمؒ: زندگی کے دلچسپ اور سبق آموز واقعات از ضیا شاہد)

0 comments:

Post a Comment