Tuesday 23 September 2014

انسان سے متعلق پانچ راز، جنہیں سائنس نہیں سمجھ سکی - See more at: http://www.qudrat.com.pk/2014/09/129932#sthash.JudJFBGb.dpuf


تقریباً دو لاکھ سال اس کرۂ ارض پر گزارنے کے بعد ہم نے ’’انسان‘‘ کے بارے میں کافی کچھ جان لیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان کیسے کھاتا ہے، سانس کیسے لیتا ہے، انسان کا دل کیسے دھڑکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ آپ کا خیال ہو گا کہ سائنس کی اس قدر ترقی کے بعد ہمیں انسانی جسم کے بارے میں تمام حقائق کا علم ہوچکا ہو گا۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بعض ایسے سادہ سے سوالات ہیں جن کے ٹھوس جواب ابھی تک ہمیں معلوم نہیں ہو سکے۔ ان سوالوں کے بارے میں ہمارے پاس صرف اندازے، قیاسات اور مفروضات ہیں۔ سوال آج بھی تشنۂ جواب ہیں۔ 1۔ درد کیا ہے اور کیوں ہوتا ہے؟ درد ایک تکلیف دہ اورعالم گیر انسانی تجربہ ہے۔ یہ اُن چند چیزوں میں سے ہے جن سے ہمیں زندگی میں سب سے پہلے پالا پڑتا ہے۔ ہم پیدا ہونے کے وقت ماں کی کوکھ کے پُرسکون ’’حجرے‘‘ سے نکلتے ہی درد سہنے لگتے ہیں۔ درد ہی وہ احساس ہے جو ہمارا آخری احسا س ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ درد واقعتاً کیا ہوتا ہے؟ یہ کس طرح اثر کرتا ہے؟ کیا آپ کو ہونے والا درد اور آپ کے ہمسائے کو ہونے والا درد ایک سا ہوتا ہے؟ اگر آپ کو ان سوالوں کے جواب دینے میں مشکل پیش آ رہی ہے تو کوئی بات نہیں۔ سائنس کے پاس بھی ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ درد کے بارے میں تحقیق کرنے والے سائنس دانوں سے لے کر اس کے علاج کے لیے دوائیں بنانے والوں اور یہ دوائیں آپ کو تجویز کرنے والے ڈاکٹروں تک کسی ایک کو بھی ٹھیک سے علم نہیں ہے کہ درد کیا ہوتا ہے اور کوئی بھی درد کی کسی ایک تعریف سے متفق نہیں۔ یہ زمانہ سائنسی کہانیوں کے حقیقت بننے کا زمانہ ہے۔ یقیناً آج کے ڈاکٹر درد کی کیفیت میں آپ کے دماغ کا سکین کر کے یہ جان سکتے ہیں کہ درد کہاں ہے اور اس کی شدت کتنی ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر کہتے ہیں پورے جسم میں درد کی بیماری فائبرومیالگیا میں مبتلا افراد کے دماغوں کو سکین کیا گیا تو مختلف نتائج سامنے آئے۔اس بیماری کے ہر مریض کے سکیننگ نتائج مختلف پائے گئے۔ کوئی جسمانی ٹیسٹ ایسا نہیں جس سے تصدیق ہو کہ آپ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ کوئی بھی ڈاکٹر آپ کو نہیں بتا سکتا کہ آپ کو کتنا درد ہو رہا ہے۔یونی ورسٹی آف کولوراڈو، بولڈر کے نفسیات اور نیوروسائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر ٹور ویگر کہتے ہیں: ’’درد اور دوسرے جذبات و احساسات کو ماپنے کا کوئی ایسا طریقہ اس وقت موجود نہیں جسے سب ڈاکٹر تسلیم کرتے ہوں سوائے اس کے کہ کسی شخص سے پوچھا جائے کہ وہ کیا محسوس کر رہا ہے۔‘‘ 2۔ آپریشن کے وقت بے ہوش کرنے والی دوائیں کس طرح کام کرتی ہیں؟ تخدیر (Anesthesiology) واقعتاً طبی سائنس کا معجزہ ہے۔ بہرحال جب آپ اس کے بارے میں غور کریں گے تو اسے کافی خوف انگیز بھی پائیں گے۔ یقیناً آپ یہ بات خوف انگیز محسوس کریں گے کہ ماہرینِ تخدیر (anesthesiologists) چند عام سے کیمیائی مادّوں کے ذریعے ہمارے دماغوں کو پوری طرح سلا دیتے ہیں۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک بار آپ کو اس طرح سے سلا دیا جائے تو پھر آپ کی آنکھ کبھی نہیں کھلے۔ ہے نا خوف انگیز بات؟؟یہاں سوال یہ ہے کہ یہ کیمیائی مادّے کس طرح کام کرتے ہیں؟ وہ آپ کے جسم پر کس طرح اثر کرتے ہیںکہ اس قدر نازک توازن برقرار رہتا ہے یعنی آپ زندہ ہوتے ہوئے بھی ہر تکلیف محسوس کرنے سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ سب سے خوف انگیز بات یہ ہے کہ سائنس کو اس سوال کا جواب معلوم نہیں ہے!! اصل میں فنِ تخدیر (anesthesia) نے پچھلے دو سو سال میں کچھ اس طرح ترقی کی ہے کہ ڈاکٹر کہتا، ’’اچھا تو یہ شخص اب بھی چیخ رہا ہے۔ ٹھیک ہے اسے بے ہوشی کی دوا مزید دے دو۔‘‘ اس طرح آزمانے اور غلطیوں سے سیکھنے کے مسلسل عمل کے ذریعے ہم مطلوب اثرات حاصل کرنے کے قابل ہو گئے۔ بہرحال یہ سوال اب بھی جواب کا طلب گار ہے کہ تخدیر کے لیے استعمال کیے جانے والے مادّے انسانی شعور کو کس طرح سلا دیتے ہیں۔ یہ مادّے دماغ کے ہر حصے پر یکساں اثر نہیں کرتے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ انہیں دماغ کے ہر حصے کے لیے الگ الگ کیمیائی مادّے استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ تخدیر کا عمل ہمارے شعور کو کس طرح سلا دیتا ہے، سائنس اس بارے میں اس باعث معلوم نہیں کر سکی کہ سائنس دانوں کو ابھی تک یہی معلوم نہیں کہ شعور کیا ہے اور کس طرح کام کرتا ہے۔ یہ ظاہر کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کوئی شخص ہوش میں ہے یا نہیں۔ بہترین ماہرینِ تخدیر بھی اس بارے میں صرف یہی کر سکتے ہیں کہ دماغ کی کچھ خاص امواج کا جائزہ لیں، جسمانی ردِ عمل دیکھیں اور یہ دیکھیں کہ تخدیر کے عمل سے گزرنے والا شخص درد محسوس کر رہا ہے یا نہیں۔ لیجیے پھر وہی درد سامنے آ گیا۔ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ سائنس کے پاس ابھی تک کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جو یہ طے کر سکے کہ آپ درد کے شکار ہیں یا نہیں۔ چناں چہ اس بات کا انحصار مکمل طور پر آپ پر ہے کہ انہیں بتائیں آپ ہوش میں ہیں یا نہیں۔ 3۔ ہم ہنستے کیوں ہیں؟ آج تک سائنس یہ بات یقینی طور پر نہیں جان سکی کہ ہم ہنستے کیوں ہیں۔ ہنسی کے ضمن میں ہم یہ ضرور جان چکے ہیں کہ ہمارے تمام جذباتی ردِعمل کے برعکس ہنسی ہمارے دماغ کے تمام حصوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ ہمارے دماغ کے موٹر سیکشنز پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہماری زیادہ تر ہنسی کا تعلق مزاح سے نہیں ہوتا۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ 20فی صد سے کم ہنسی کسی مزاحیہ بات کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اکثر اوقات ہم اپنی بے ضرر گفتگو کے درمیان ہنستے ہیں، کسی سے باتیں کرتے ہوئے باتوں کے درمیانی وقفوں کو پُر کرنے کے لیے ہنستے ہیں یا پھر اپنے منصوبے کے تکمیل پذیر ہونے پر ہنستے ہیں۔ 4۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی کیوں کرتے ہیں؟ نوعِ انسان کے ارتقائی مراحل میں شکار کے زمانے کا تصور کریں۔ اس زمانے میں انسان کے لیے صرف اور صرف اپنی بقا سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔ فرض کیا اس زمانے میں آپ کو جنگل کے بیچوں بیچ ایک مزے دار کیک کہیں سے مل جاتا تو اس مفروضہ کیک میں سے دوسرے انسانوں کو بھی حصہ دینا آپ کی بقا کی جبلت کے خلاف ہوتا۔ آخر کو یہ کیک آپ کا تھا، آپ کیوں اس کا ایک ٹکڑا بھی کسی دوسرے انسان کو دیتے؟ آپ ان لوگوں کا منہ نہیں نوچ لیتے جو اس کی کریم والی سطح کو اپنی ’’چور انگلیوں‘‘ سے چھونے کی کوشش کرتے!! اس زمانے میں بھلائی کے بے غرضی والے کام سراسر نقصان دہ تصور کیے جاتے ہوں گے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتِ حال میں اجتماعی فلاح اور دوسرے انسانوں کی بھلائی کا تصور کس طرح باقی رہا؟ اس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ ہمیں معلوم نہیں۔ سائنس دان دوسرے انسانوں کی بھلائی کے ’’بھید‘‘ کو سمجھنے کی کوششیں تقریباً ایک صدی سے کر رہے ہیں۔ بیسویں صدی کے ساتویں عشرے (1960s)میں جارج پرائس نے ریاضی کی ایک پیچیدہ مساوات بنائی تھی جس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ دوسروں کی بھلائی کا جذبہ ظاہری طور پر بقا کے لیے نقصان دہ ہونے کے باوجود کس طرح باقی رہ پایا تھا۔ جارج پرائس اپنے ہی مفروضے سے اس قدر سحر زدہ ہو گیا تھا کہ سائنسی تحقیق کے لیے اپنی تجربہ گاہ جاتا تو بے گھر اور ضرورت مند اجنبیوں کو اپنے اپارٹمنٹ میں چھوڑ جاتا۔ اس نے اپنا سب کچھ دوسروں کو دے دیا۔ جب اس کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا تو ایک دن قینچی خود کو گھونپ کر اس نے خود کشی کر لی۔ اس طرح جارج پرائس کی بنائی ہوئی مساوات کے باوجود دوسرے انسانوں کی بھلائی کا بھید سمجھ میں نہ آنے والا بھید ہی رہا۔ 2۔ بعض انسان ’’کھبّو‘‘ کیوں ہوتے ہیں؟ دنیا کے تقریباً 90فی انسان دائیں ہاتھ سے کام کاج کرتے ہیں۔ باقی 10فی صد صد انسان بائیں ہاتھ سے کام کاج کرتے ہیں۔ یہ خصوصیت صرف انسانوں میں پائی جاتی ہے۔ دوسرے حیوانوں میں یہ فرق نہیں پایا جاتا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان اتنے مختلف کیوں ہیں؟ ایسا بالکل بھی نہیں کہ بائیں ہاتھ سے کام کاج کرنے والے انسانوں کے دماغوں کی ساخت غلط ہو۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بائیں ہاتھ سے کام کاج کرنے والے انسان بھی دائیں ہاتھ سے کام کاج کرنے والے انسانوں کی طرح الفاظ سے پیدا ہونے والے سگنلز کے ذریعے اپنے دماغوں کے بائیں حصے ہی سے دوسرے لوگوں کی باتیں سمجھتے ہیں۔البتہ ایک فرق یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے کام کاج کرنے والے انسانوں کا بایاں پاؤں غالب ہوتا ہے اور بائیں ہاتھ سے کام کاج کرنے والے انسانوں کا دایاں پاؤںغالب ہوتا ہے۔ جب سے بائیں ہاتھ سے کام کاج کرنے والے انسانوں کو مہذب معاشرے میں غیر مہذب سمجھا جانے لگا ہے اس وقت سے سائنس دان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسے انسانوں کے بائیں ہاتھ سے کام کاج کرنے کی وجہ کیا ہے لیکن یہ بھید ہنوز ایک سربستہ راز ہی ہے۔ ہم یہ ضرور جان چکے ہیں کہ بائیں ہاتھ سے کام کاج کرنا ایک ایسی خصوصیت ہے جو کہ جینز کے ذریعے انسانوں میں نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ چناں چہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بائیں ہاتھ سے کام کاج کرنے کی خصوصیت کی منتقلی کے ذمہ دار جینز ضرور کوئی فائدہ دیتے ہوں گے جس کی وجہ سے یہ خصوصیت آگے منتقل ہو پاتی ہے۔ یہ مفروضہ فائدہ کیا ہے، اس بارے میں ابھی تک کسی کو کچھ بھی واضح معلوم نہیں ہو سکا۔ چوں کہ بائیں ہاتھ سے کام کاج کرنے والے انسانوں کا تناسب بہت کم ہے اس لیے ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ یہ خصوصیت کم ہوتے ہوتے معدوم ہونے والی ہے، تاہم یہ ابھی تک محض ایک مفروضہ ہی ہے۔ زمانۂ قبل از تاریخ سے تعلق رکھنے والے مقامات پر کی جانے والی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اس زمانے میں بھی بائیں ہاتھ سے کام کاج کرنے والے انسانوں کا تناسب مجموعی انسانی آبادی میں اتنا ہی تھا جتنا کہ آج ہے۔ گویا پوری انسانی تاریخ میں بائیں ہاتھ سے کام کاج کرنے والے انسانوں کی تعداد دائیں ہاتھ سے کام کاج کرنے والے انسانوں کے مقابلے میں بہت کم رہی ہے۔ بائیں ہاتھ سے کام کاج کرنے کا بھید تو اپنی جگہ ہے ہی حیران کن، یہ بھید بھی آج تک کوئی نہیں کھول سکا کہ آخر انسان کا ایک ہاتھ ہی کیوں ہمیشہ غالب ہاتھ ہوتا ہے۔ انسانی جسم کی ساخت میں موجود عدم ہم آہنگی کے بارے میں لیبارٹریوں میں مصروفِ کار سائنس دان بھی ان کا مشاہدہ کر کے کچھ نہ سمجھنے کی کیفیت میں بس اپنا سر کھجاتے رہ جاتے ہیں۔ انسانی جسم میں موجود عدم ہم آہنگی کی چند مثالیں دیکھیے: (1)ہمارے دل ایک جانب جھکے ہوئے ہوتے ہیں (2) ہمارے پھیپھڑے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔انسانی دماغ سب سے حیران کن عضو ہے۔ یہ انسانی جسم کا سب سے غیر ہم آہنگ عضو ہے۔ بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ عدم ہم آہنگی ہی وہ خصوصیت ہے جو ہمیں انسان ہونے کا شرف عطا کرتی ہے۔ - See more at: http://www.qudrat.com.pk/2014/09/129932#sthash.JudJFBGb.dpuf

0 comments:

Post a Comment