Wednesday 28 January 2015

پیپسی اور کوک کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی جنسی زندگی پر خوفناک اثرات تحقیق میں سامنے آگئے



    نیویارک (نیوز ڈیسک) سافٹ ڈرنک ہماری زندگی کا لازمی ترین حصہ بن چکا ہے اور کوئی تقریب ایسی نہیں کہ جس میں کوکا کولا، پیپسی، سپرائٹ، ڈیو اور ایسے ہی دیگر مشروبات لازمی نہ سمجھے جاتے ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بچوں اور نوعمر افراد کو بھی ان مشروبات کی لت پڑچکی ہے اور یہ بات نہایت تشویشناک ہے کہ امریکا میں کی گئی ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ان مشروبات کا بکثرت استعمال کرنے والی لڑکیوں میں ایام کا آغاز وقت سے پہلے ہوجاتا ہے اور بعدازاں ان میں چھاتی کے کینسر کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔
    کس پیشے سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہمسفر سے بے وفائی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ?تحقیق کے نتائج آپ کو ہنسنے پر مجبور کر دیں گے 
    ہارورڈ یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیوں کی ایک مشترکہ تحقیق میں 6000 لڑکیوں کا مشاہدہ 5 سال تک جاری رکھا گیا اور اس دوران ان میں میٹھے والی مشروبات کے استعمال اور ایام کے آغاز کا مطالعہ کیا گیا۔ تحقیق کی سربراہ ڈاکٹر کیرن مشیل کہتی ہیں کہ پانچ سال کے اختتام پر 97 فیصد لڑکیوں میں ایام کا آغاز ہوچکا تھا۔ جو لڑکیاں اوسطاً ڈیڑھ گلاس میٹھا مشروب روزانہ پیتی رہیں ان میں ایام کا آغاز اوسطاً تین ماہ قبل ہورہا تھا جبکہ سب سے زیادہ میٹھے مشروب پینے والی لڑکیوں میں سب سے کم پینے والی لڑکیوں کی نسبت ایام کا آغاز قبل از وقت ہونے کی شرح 22 فیصد زیادہ تھی۔ مصنوعی میٹھے والے سافٹ ڈرنک کا زیادہ استعمال کرنے والی لڑکیوں میں موٹاپے کی شرح بھی زیادہ پائی گئی اور بعد کی عمر میں یہی لڑکیاں چھاتی کے کینسر کا بھی نسبتاً زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ 
    ڈاکٹر کیرن کا کہنا ہے کہ فروٹ جوس کی بجائے ایسے مشروب زیادہ خطرناک ہیں جن میں مصنوعی میٹھا ڈال کر انہیں بچوں اور بڑوں کیلئے پسندیدہ بنایا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ زیادہ میٹھے والے مشروبات استعمال کرنے سے ہارمون انسولین کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے جنسی ہارمون بھی قبل از وقت متحرک ہوکر لڑکیوں میں ایام کا آغاز قبل از وقت کردیتے ہیں۔ جو لڑکیاں مصنوعی میٹھے والے سافٹ ڈرنک سے محفوظ تھیں ان میں ایام کا آغاز اوسطاً 13 سال کی عمر میں ہوا۔ تحقیق میں جن مشروبات کے استعمال پر نظر رکھی گئی ان میں کوکا کولا، پیپسی، سوڈا مشروبات، لیمو اینڈ فروٹ مشروبات شامل ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج کی رپورٹ سائنسی جریدے "Human Reproduction" میں شائع کی گئی۔

    0 comments:

    Post a Comment