Monday 16 February 2015

ملک میں مقیم غیرملکی خاتون صحافی نے پاکستان کے طاقتور ترین طبقے کی نجی محفلوں سے پردہ اٹھادیا



    اسلام آباد(نیوزڈیسک)آپ نے پاکستان میں موجود اشرافیہ کے بارے میں تو بہت سن رکھا ہوگا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دو فیصد سے بھی کم لوگ 18کروڑ عوام کی قسمت کا فیصلہ کرتی ہے ۔یہ اشرافیہ بے رحم ہے اور اپنی ترجیحات میں اس قدر خود غرض ہو جاتی ہے کہ یہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ، ملک کے قوانین اپنے حق میں استعمال کرنے اورتمام اداروں کو اپنے مقاصد کے استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتی۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ چند لوگ کس طرح پوری قوم کو یرغمال بنا کر بیٹھے ہیں۔اس راز سے ایک غیر ملکی خاتون صحافی Rosita Armytage نے پردہ اٹھا دیا ہے۔اس خاتون نے کمال بے باکی سے اشرافیہ میں نقل و حمل کی اور نہایت ہوشیاری سے وہ تمام باتیں لوگوں کو بتادیں ہیں جو لوگوں کے علم میں بہت کم ہیں۔ اس خاتون کے انکشافات پڑھ کر عام آدمی کو علم ہوگا کہ کیوں ہمارا پیارا ملک پاکستان اس حالت کو پہنچااور وسائل سے مالا مال اس وطن کو کس طرح چند مٹھی بھر لوگوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرکے غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔
    اس خاتون کا کہنا ہے کہ پاکستانی اشرافیہ کو تین حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے، ایک پاکستان بننے سے قبل کے رئیس، دوسرے جاگیردار اور تیسرے وہ جو پاکستان بننے کے بعد کاروبار ی بنے اور 1970ءسے انہوں نے بہت تیزی سے پیسہ بنایا۔خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ اس اشرافیہ کا سب سے بڑا سرمایہ آپس کی ’نیٹ ورکنگ‘ ہے اور یہ بہت ہوشیاری سے آپس میں معلومات کا تبادلہ کرتی ہے اور پیسہ بنانے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ اس مقصد کے لئے اشرافیہ پیسہ،عورت، قیمتی تحائف، پراپرٹی اور دیگر ہتھکنڈوں کا استعمال کرتی ہے۔یہ اشرافیہ کسی بھی صورت کسی کو اپنے برابر نہیں آنے دیتی کیونکہ ان کا خیال ہے کہ صرف وہ ہی اس کی حق دارہے اور کوئی بھی عام آدمی ان میں نہیں بیٹھ سکتا اور اس مقصد کے لئے وہ ایسے قوانین ہی نہیں بننے دیتے کہ کوئی غریب آدمی محنت کرکے اس ملک میں اپنا نام بنا سکے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں شاذوناذر ہی ایسا ہوا ہوگا کہ کوئی غریب آدمی ان لوگوں میں شامل ہوا ہو۔پاکستان کا سسٹم (معاشی اور سیاسی)بہت زیادہ بند ہے جہاں لوگوں کو کاروبار کرنے کے یکساں مواقع میسر نہیںاور یہاں اگر کوئی ایمانداری سے کاروبار کرنے کا خواہاں ہو تو وہ ناکامی سے دوچار ہوتا ہے۔
     اس کا کہنا ہے کہ یہ اشرافیہ اپنے بڑوں، نوجوانوں اور خواتین کے ذریعے آپس میں تعلق بناتے ہیں اور اگر اس مقصد کے لئے اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں بھی کرنی پڑیں تو یہ گریز نہیں کرتی کیونکہ ان کے لئے یہ معمول کی کاروائی ہوتی ہے اور ان کے لئے سب سے اہم بات دوسرے لوگوں سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔یہ لوگ پارٹیوں کا اہتمام کرتے ہیں جہاں اعلیٰ درجے کی شراب اور خوبرو خواتین کو ’کام‘کے لوگوں کو اپنی بوتل میں اتارنے کاپورا موقع ملتا ہے۔ کام کے لوگ وہ ہوتے ہیں جنہیں حکومتی فیصلوں تک رسائی ہوتی ہے اور ان میں بڑے بیوروکریٹ بھی شامل ہوسکتے ہیں جن کا استعمال بہت خوبصورتی سے کیا جاتا ہے اور ان سے باآسانی اپنی مرضی کے فیصلے کروا لئے جاتے ہیں۔ چونکہ اشرافیہ کو ان فیصلوں کا پہلے سے ہی علم ہوتا ہے لہذا ان کے لئے مستقبل کا لائحہ عمل بنانے میں بہت مدد ملتی ہے۔ایک پارٹی جس میں اس خاتون صحافی نے بھی شرکت کی جہاں وہ ایک دوست کی وجہ سے اس محفل میں شریک ہوپائی۔ اس پارٹی کا حال بتاتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ جب وہ اس پارٹی میں داخل ہوئی تو اسے ایسا لگا کہ وہ کسی خیالی دنیا میں آگئی ہے جہاں عام لوگوں کا داخلہ منع ہے ۔ویٹر نے ہاتھ میں سرخ اور سفید وائن کے گلاس والی ٹرے پکڑی ہوئی تھی جبکہ لان میں اعلیٰ کپڑوں میں ملبوس افراد ہاتھ میں وہسکی کا گلاس لئے پاکستان کی سیاست اور بزنس پر بات کرنے میں مشغول تھے جبکہ ایک طرف صوفوں پر بیٹھی ہوئی زرق برق لباس میں ملبوس خواتین ایک دوسرے کو دیکھ کر ایسے اظہار کررہیں تھیں کہ جیسے ایک دوسرے سے مل کر وہ بہت خوش ہیں۔ایسے موقع پر طاقتور لوگوں کے فون نمبرز لئے جاتے ہیں اور بعد میں ان سے رابطہ کرکے اپنے مقاصد نکالے جاتے ہیں۔
    اس کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پارٹیوں کا مقصد اشرافیہ کا آپس میں تعلق گہرا کرنے کے علاوہ سیاسی اور کاروباری لوگوں کے ساتھ مل کر اپنے ایجنڈا کو آگے بڑھانا ہے۔اس طرح کی پارٹیوں میں پاکستان کی پالیسی سازوں کی شرکت یقینی بنانے کی مکمل تگ و دو کی جاتی ہے جہاں ان سے بہت کمال خوبصورتی سے ان فیصلوں پر احکامات جاری کروائے جاتے ہیں جن سے اشرافیہ کے کاروبار کو براہ راست فائدہ ہوتا ہے اور اگر اس میں عوام کا کوئی نقصان ہوتا بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
    گھر سے آغاز
    بہترین نیٹ ورک بنانے کے لئے اشرافیہ اس کام کاآغاز اپنے گھر ہی سے کرتی ہے۔خاندان کے تمام افراد جو کامیابی سے بزنس کرتے ہیں کاآپس میں مضبوط رابطہ ہوتا ہے اور بچپن ہی سے انہیں اس بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ انہیں ان لوگوں سے تعلقات بنانے ہیں جن سے ان کے کاروبار کو فائدہ پہنچے۔ لاہور کے ایک کاروباری شخص کے حوالے سے خاتون صحافی لکھتی ہیں کہ ’کسی بھی فیملی اکٹھ میں ہمارا صرف ایک ہی موضوع ہوتا ہے اور وہ ہے ہمارا کاروبار۔اگر کوئی شادی ہو، جنازہ ہو یا پھر کوئی فیملی فنکشن، ہم سب بس ایک ہی بات کرتے ہیں کہ کس طرح کامیاب کاروبار کرکے پیسہ کمانا ہے اور حکومت نے قوانین میں کیا تبدیلیاں کی ہیں اور ہم کس طرح ان قوانین کو اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں۔‘
    اسی طرح ان خاندانوں کی خواتین بھی اہم کردار ادا کرتے ہوئے کام کرتی ہیں۔یہ دیگر خاندانوں کے بارے میں علم رکھتی ہیں اور اگر اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کے لئے شادیاں کرنی پڑیں تو اس کام سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔
    پارٹیوں کا انعقاد
    ہر ہفتے پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جس کا اہم ترین مقصد دیگر لوگوں کو اہنے ساتھ رابطے میں رکھنا ہے۔ ایک کاروباری شخصیت کا کہنا ہے کہ اس نے ہر مہینے اس طرح کی پارٹیوں کے لئے ایک بڑا بجٹ رکھا ہوا ہے جہاں طاقت اور اختیار والے لوگوں کو بلایا جاتا ہے اور ان کے مزید قریب ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔
    ا س طرح کی پارٹی میں ہر امیر آدمی شریک نہیں ہوسکتا بلکہ ا س میں جانے کے لئے ضروری ہے کہ ’اندرکا آدمی‘ آپ کو بلائے ۔ ان پارٹیوں میں سیاست،کاروبار اور عسکری اشرافیہ شریک ہوتی ہے اور بہت مزے سے ملک کے حالات پر تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ ساتھ ’اندر کی باتیں‘کرتی ہے۔یہ بڑے بڑے لوگوں کو ’صاحب‘ کا لفظ استعمال کئے بغیر بے تکلفی سے پکارتی ہے اور یہاں ہر طرح کی باتیں کی جاتی ہیں۔بڑے لوگوں کی ذاتی زندگیاں،ناجائز تعلقات اور ان کی منشیات کا استعمال کے موضوع پر کھل کر بات بھی جاتی ہے۔یہ آپس میں کاروبار کی بات کرنے کے ساتھ درست ’طریقہ کار‘ پر بھی تبادلہ خیال کرتے ہیں۔خاتون صحافی نے ایک میڈیا ہاﺅس کے مالک کے حوالے سے لکھا ہے کہ آج کی دنیا میں کامیاب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے طاقتور لوگوں کے ساتھ کتنے کامیاب تعلقات ہیں اور آپ کس طرح ان تعلقات کو اپنے مقاصد کو کامیاب بنانے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔اس کا کہنا ہے کہ اس کی فیملی لاہور میں ہونے والی اس طرح کی پارٹیوں میں سے 15فیصد کا انعقاد یقینی بناتی ہے اور وہ ان تعلقات کو اپنے کاروبار کی کامیابی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
    خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے تعلقات نہ صرف کاروبار کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہیں بلکہ اپنے کاروبار کو ’حکومتی شر‘ سے محفوظ بنانے کا بھی ذریعہ ہیں۔وہ مزید لکھتی ہے کہ حکومت میں کچھ لوگ بہت ایماندار بھی ہوتے ہیں اور وہ رشوت جیسی لعنت سے دور بھاگتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کو قیمتی تحائف دے کر اپنے کام نکالا جاتا ہے۔ ایک اور کاروباری شخصیت کے حوالے سے وہ لکھتی ہیں کہ اس کا کہنا ہے کہ ایک سیئنرپولیس والا اس کا قریبی دوست ہے،وہ کوئی رشوت نہیں لیتا لیکن جب اسے کسی قسم کا کام ہو تو وہ پولیس والا فرمائش کرتا ہے جو وہ ہر حال میں پورا کرتا ہے۔اس کاروباری کا کہنا ہے کہ اس نے ایک بار حساب کتاب کیا تو اسے علم ہوا کہ ایک سال میں اس نے پولیس والے کی مختلف فرمائشیں پوری کیں جن کی مالیت 20لاکھ روپے لگائی۔ اس کاروباری کا کہنا ہے کہ اب ظاہری بات ہے کہ اس کا پولیس والا دوست اسے بھی ہر حال میں مدد دے گا اور اس کی کسی بات کو رد نہیں کرے گا۔
    نوٹ:یہ تحریر آن لائن میگزین ’تنقید‘ میں انگریزی زبان میں شائع کی گئی تھی۔قارئین کی آسانی کے لئے اسے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔اس خبر کا حوالہ

    0 comments:

    Post a Comment